Saturday, 9 January 2016
مٹی
مٹی ہاں وہ مٹی تھی جسے بنی آدم کے پیروں کی دھول بننا تھا..یہ وہ مٹی نہیں تھی جس سے مٹی کے باوں کو اٹھا یا گیا ..وہ تو خود مٹی کا باوا تھی جو ڈھے کر پیروں کی زمین بن گئی خود اسکو ہی روندنے والوں کی آخری پناہ گاہ..
اس پر ہی اکڑ کر چلنے والوں کے لیے ٹھنڈی سایہ دار پناہ گاہ..فیصلہ ہو چکا تھا کہیں بہت اوپر ...
مٹی بننے والے والوں کا دنیا میں ایک ہی سہارا ہوتا ہے جو انکو پکا ر پکا ر کر کہتا ہے...
"*میں نے تمہیں اپنے لیے بنا یا ہے*"
اور پھر اس سے بڑی شان کیا ہو گی جب بنا نے والا خود ہی کہہ دے میں نے تمہیں اپنے لیے بنا یا ہے..
صاحب مٹی کا کا م دینا ہو تا ہے بس دیتے ہی جا نا..مٹی کب میں کا سوال کر تی ہے. ..اسکی زر خیزی تو اور بڑھ جا تی ہے جب اس میں دکھ ,نفی,درماندگی کی کھاد ڈالی جا تی ہے.. وہ دینے والی بن جا تی ہے اپنی چوکھٹ پہ بیٹھنے والوں کو درختوں کی ٹھنڈی چھا ؤں دیتی ہے ..ان کو بھی دیتی ہے جو اسکے اوپر فساد برپا رکھتے ہیں اور انکو بھی جو اسے ناچیز سمجھ کر پوشاک سے جھاڑ دیتے ہیں ...ہاں مٹی کے باوے سے مٹی بننے کا سفر وہی جانیں جنکو سینچا جا تا ہے نفی کے پا نی سے....فیصلہ آپکا دکھ کی چا در اوڑھے صحرا میں اگا ببول بننا ہے یا گھنا سایہ دار درخت جو بے نیازی سے ہر ایک کو پھل اور سایہ دیتا ہے خود دھوپ میں جل کر اوروں کے لیے باعث راحت بنتا ہے..تقدیر کے فیصلے اٹل ہوا کرتے ہیں ان سے لڑ نے کی کوشش میں ببول بن جاؤ گی اور اسکی منشاء میں راضی ہو گئی تو مٹی بن جا ؤ گی زرخیز مٹی جو سایہ دار درخت اگاتی ہے..اور دوسروں کے لیے راحت بننے والوں کو ہی تو اس نے اپنے لیے بنا یا ہے...!
©حیا مریم
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment