Saturday, 16 April 2016

اخلاص

اخلاص ایک بہت قیمتی شے ہے..با لکل خا لص ہو جا نا ہر ملاوٹ سے ماورا ہو کر ربّ کر یم کا ہو جا نا اخلاص ہے..
جیسے محبت میں انسا ن اردگرد کی چیزوں  سے بے نیا ز ہو جا تا ہے اسے چا ہیئے ہو تی ہے صرف اور صرف اپنے محبوب کی رضا .وہ ایک پروانہ بن جا تا ہے جسکا محور صرف اور صرف محبوب کی رضا ہو تی ہے کو ئی دکھا وا نہیں ہو تا وہ دنیا والوں کو دکھا نے کے لیے محبوب سے محبت نہیں رکھتا اسلئیے رکھتا ہے کیونکہ اسکا من اپنے محبوب کی طرف ما ئل ہو تا ہے..
اللّٰہ سے جن لوگوں کو حقیقی محبت ہو جا یا کر تی ہے نا پھر دنیا ان کے دل سے نکل جا تی ہے...وہ خا لص ہو جا تے ہیں اپنے ربّ کے لیے...
تم کیا جا نو دنیا کا دل سے نکلنا کیا ہے؟دنیا میں رہتے ہو ئے اپنا دل اللّٰہ سے لگا ئے رکھنا .
ہر وہ کا م کر نا جو ربّ کر یم کو راضی کر دے .دنیا والوں سے محبت رکھنا تو اس لیے کیونکہ وہ اپنی مخلوق سے محبت کر تا ہے..
اور پتا ہے پھر انسان کو فرق نہیں پڑ تا دنیا اسکے خلوص کو سمجھے یا نہ سمجھے ..جا نے یا نا جا نے وہ سراپا ئے خیر بن جا تا ہے..
جب ہم دنیا کے ساتھ لین دین کا حساب رکھنا چا ہتے ہیں نا احسان کر کے احسان لینے کی تمنا , کسی کا کام کر کے اس سے یہ توقع رکھ کے بیٹھ جا نا یہ میرے بھی کام آئے.کو ئی نیک کا م اسلئے کر نا دنیا والے پا رسا سمجھیں یا کسی بھی نا دار,مسکین  کو اس لیئے  کھلانا کہ آتے جا تے آپکو سلیوٹ مارے اور جھک کے احسان مند رہے .تو یہ کا م دنیا پا نے کے لیے ہیں آخرت کے لیے نہیں..نیت کا یہ فرق آپکی بڑی بڑی نیکیوں کو جلا کے راکھ کر دیتا ہے کیونکہ وہ کام آپ اللّٰہ کے لیے نہیں بلکہ دل میں اپنی تھوڑی سی غر ض چھپا کر انجام دے رہے ہیں..
یہ باتیں اس چیز کی علامت ہیں کہ ہم دنیاداری میں گھرے ہو ئے ہیں ..اور جب انسان دنیا داری میں گھر جا یا کر تا ہے تو اسکا دل ہر دم غم سے بھرا رہتا ہے..میں نے فلاں کے ساتھ بھلا ئی کی لیکن اس نے میرے احسا نوں کا بھرم نہ رکھا ..میں لوگوں کا بھلا کر تی ہو ں پر وہ برا کرتے ہیں..شاید ہم میں سے ہر کوئی کبھی نہ کبھی یہ گلہ کر تا نظر آتا ہے..
دیکھئے ربّ کریم کیا فر ماتے ہیں
*اوراحسان کر کے زیا دہ لینے کی خواہش نہ کر .اور اپنے رب کی راہ میں صبر کر
(المدثر :7)*
جب آپ pure ہو جا تے ہیں نااللّٰہ کے لیے اور دنیا پا نے کی طمع لا لچ آپکے دل سے نکل جا تا ہے یقین مانیے دنیا آپکے قدموں میں ڈھیر کر دی جا تی ہے..اور دنیا والوں کے دل میں آپکی عزت و محبت ڈال دی جا تی ہے یہ ہے بدلہ میرے ربّ کے لیے خالص ہو نے کا
دنیا اور آخرت دونوں میں ہی اسکے فا ئدے ربّ کر یم کی رضا کے ساتھ..
اور دنیا ایک سراب ہے جسکے پیچھے جتنا بھا گتے جا ئیں گے پیاس اور بڑھتی جا ئے گی اور جب اسکے قریب پہنچیں گے تو معلوم ہو گا چمکتی ریت  کو پا نی سمجھ کر ہم بھا گتے رہے..ہا ئے افسوس اس مشقت میں صرف اور صرف غم ہے.
اس دن بہت سے منہ والے ذلیل ہوں گے.سخت محنت کر نے والے تھکے ماندے.(الغا شیۃ:3-2)
وہ وہی لوگ ہو ں گے جو دنیا کے پیچھے بھاگتے رہے اپنے پیدا کر نے والے کو ,اپنی آہو زاری کو سننے والے کو ,اپنے پروان چڑ ھا نے والے کو ,اپنے کھلانے والے,بہت محبت کر نے والے رب ّ کو بھلا کر دنیا میں بھی غمگین رہے اور آخرت میں بھی..
اور بہت سے منہ (والے) اس روز شاد مان ہو ں گے.اپنے اعمال (کی جزا ) سے خوش دل.
بہشت بریں میں.وہاں کسی طر ح کی بکوس نہیں سنیں گے.اس میں چشمے بہ رہے ہوں گے.وہاں تخت ہو ں گے اونچے بچھے ہو ئے .اور پینے کے برتن (قرینےسے ) رکھے ہوں گےاور گاؤ تکیے قطار لگے ہو ئے.اور نفیس مسندیں بچھی ہو ئی . (الغا شیۃ:16-8)
یہ بدلہ اپنے ربّ کے لیے خا لص ہو نے والوں کا  اور بے شک میرا ربّ کبھی بے قدری نہیں کرتا..
ہم دنیا کے پیچھے بھا گنے والے سمجھتے ہیں کہ دین کو اپنا نے سے ہم دنیا کی رنگینیاں کھو دیں گے..مگر دین کو جا نے بغیر اپنا ئے بغیر ہم اسکا ذائقہ کیسے چکھ سکتے ہیں اسکے ثمرات کیسے دیکھ سکتے ہیں ..
اتنا بے سمت نہ چل .
کہ لوٹ کے گھر جا نا ہے...!
©حیا مریم

Thursday, 24 March 2016

امر بیل

وہ چیختی جا رہی تھی نور الابصار میرا دل پھٹتا جا رہا ہے میں کیا کروں میرا اپنے آپ پہ بس نہیں رہا ..کیا وہ اور کسی لڑ کی کے ساتھ ایسے ہنسی خوشی رہے گا ؟؟میرا دل پھٹ رہا ہے سوچ کے..اسکا تصور میری جان نہیں چھوڑتا مجھ سے کہتا ہے تمہیں خوش رہنے کا کو ئی حق نہیں ,, اور ہارورڈ سے پڑھنے والی وہ شوخ چنچل ,ذہین لڑکی اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر واپس آگئی.. اور محبت کیسے بنجر کر دیتی ہے اسے سب نظر آ رہا تھا نا محرم سے محبت نا صرف اسکی شکا ر ہستی کو بلکہ اسکے قر یبی لوگوں کو جس اذیت میں مبتلا کر دیتی ہے ..اس آگ میں پاؤں رکھنے سے پہلے اندازہ نہیں لگا سکتا کوئی..اسے ایک ایک کر کے ان بیس سالوں کے احسا نا ت یا د آنے لگے اسکا بابا جو فر ما ئش سے پہلے ہی ہر چیز لا دیا کر تے تھے..اسکی ماں جو ہر وقت اسکی پسند کے کھا نے بنا نے میں اسکی فرما ئشیں پوری کر نے میں جتی رہتی تھی,,اسکے بھا ئی جو اسے بے حد تنگ کر نے کے با وجود آنکھوں کا تا را بنا ئے ہو ئے تھے.. اور وہ ان سب محبتوں کو ٹھوکر مار کر اپنے نفس کے پیچھے چل نکلی تھی.. اسے اسکی وہ میٹھی میٹھی با تیں ,اسکا خیال کرنا اور fairy land کی سیر کرا دینا ہر چیز پر حاوی نظر آنے لگا.. نبی صہ نے فرمایا "محبت انسان کو اندھا کر دیتی ہے" ہاں وہ واقعی اندھی ہو نے لگی تھی اسے اسکی باتوں کے سوا ہر بات بری لگنے لگی تھی,,اسے اپنی دوستوں کا مان رکھنا بھول گیا تھا,,وہ بھول بیٹھی تھی کہ وہ ماں با پ جو معا شرے میں سر اٹھا کر چلتے ہیں ,,انکی کیسی جگ ہنسا ئی ہو رہی ہے... اور ربّ کے فر مان نے نو رالابصار کی آنکھیں بھگو ڈالیں ... "بیشک انسان خسا رے میں ہے" کیا آپ جان سے عزیز لوگوں کو آگ سے کھیلتا اس سے جلتا دیکھ سکتے ہیں ؟؟کیا وہ لوگ جنہیں آپ خون کے رشتوں کی طرح عزیز رکھتے ہوں انہیں لٹتا دیکھ سکتے ہیں ..نورالابصار رونے لگی کتنا روکا تھا میں نے حور تم کو..تمہاری یہ حالت مجھ سے دیکھی نہیں جا تی میرا دل کٹ رہا ہے اندر سے سنبھا لو اپنے آپ کو... حور عین عشق وہ امر بیل ہے جو جس درخت سے لپٹتی ہے اسے بنجر کر دیتی ہے..یہ آگ کو پھول سمجھ کر اسکے گردمنڈلا نے والی ہم لڑ کیاں کہاں جا نتی ہیں... اسے ایک ایک کر کے اللّٰہ کے فر مان یا د آنے لگے..ہاں اور جو اللّٰہ کے احکا مات سے روگردانی کرے دنیا اسکے لیے تنگ کر دی جا تی ہے "اے نبی کی بیویو !تم عام عورتوں میں سے کسی کی طر ح نہیں ہو,اگر تم اللّٰہ سے ڈرتی ہو تو بات میں نر می اختیا ر نہ کیا کرو .پھر جس شخص کے دل میں بیماری ہے وہ لا لچ میں پڑجا ئے گا.اور معروف با ت کرو" (الاحزاب:32) اللّٰہ اپنے بندوں پہ بہت ہی کر یم اور مہربان ہے حور وہ جا نتا ہے کہ کس کام میں پڑنا میرے بندوں کے لیے خطر ناک ہے اور اس سے وہ بہت پہلے ہی ہمیں خبردار کرتا ہے کہیں سزا کا خوف دلا کر ,کہیں نفس کو کنٹرول کر نے پر جنت کی بشارت دے کر..اور ہم نادان لڑ کیوں کو یہ بے جا سختیاں نظر آتی ہیں,,میرے اللّٰہ کا کلام تو سراسر خیر ہے...جتنا جھاڑیوں کے قریب جا ؤ گی نا اتنا ہی الجھنے کا خطرہ ہے..اسی لیے ان سے دور رہ کر چلنے کا حکم ہے,,یہی پر ہیزگا ری کا اعلٰی مقام ہے. جن با توں کو ہم معمولی سمجھ لیتے ہیں نا کیا ہوا معمولی چٹ چیٹ ہی تو ہے ,,we r just friends,,, یہ باتیں عمر بھر کا روگ بن جا تی ہیں اپنے آپ کو سنبھال لیجیئے کیونکہ آپ اپنے بابا کا فخر ہیں.. تم اک دل کو لیے بیٹھے ہو.. ہم نے نسلوں کو اجڑتے دیکھا ہے... ©حیا مریم

Wednesday, 2 March 2016

من کا مندر

جب اس نے آنسو کے پہلے قطرے کو من میں سمو یا تھا آسمان رویا تھا..چپ چاپ سر کتی ہوا سے پیڑ سر گو شیا ں کر رہے تھے . . تقدیر پہ نو حا ں کنا ں کتنے ہی آنسو اس کے من نے سمیٹے تھے چپ چا پ..اور اسے قا نع بنا دیا تھا من کے مندر نے..زمین میں دفن اس بیج کی سسکیا ں آسمان بھی سن کے رو یا تھا..کتنا سر سبز تھا وہ با ہر سے دوسروں کو جینے کے لیے آکسیجن کی فراوانی دینے والا خود زمین میں بے نا م و نشاں گھٹ رہا تھا... دوسروں کو سا یہ دینے والا وہ شجر کتنا تنہا تھا جو زمین میں پیوست اپنا کھو کھلا پن محسوس کر سکتا تھا سا یہ لینے والے آتے اور اس شجر کی وسعت ,فیا ضی کو سرا ہتے چلے جا تے..وہ سایہ دینے والا تھا پر اسکے پا س کو ئی سا ئباں نہ تھا..زمین اسکی فیا ضی پہ تڑ پی جسکا کو ئی نہ تھا.... حیا مر یم

Saturday, 9 January 2016

مٹی

مٹی ہاں وہ مٹی تھی جسے بنی آدم کے پیروں کی دھول بننا تھا..یہ وہ مٹی نہیں تھی جس سے مٹی کے باوں کو اٹھا یا گیا ..وہ تو خود مٹی کا باوا تھی جو ڈھے کر پیروں کی زمین بن گئی خود اسکو ہی روندنے والوں کی آخری پناہ گاہ.. اس پر ہی اکڑ کر چلنے والوں کے لیے ٹھنڈی سایہ دار پناہ گاہ..فیصلہ ہو چکا تھا کہیں بہت اوپر ... مٹی بننے والے والوں کا دنیا میں ایک ہی سہارا ہوتا ہے جو انکو پکا ر پکا ر کر کہتا ہے... "*میں نے تمہیں اپنے لیے بنا یا ہے*" اور پھر اس سے بڑی شان کیا ہو گی جب بنا نے والا خود ہی کہہ دے میں نے تمہیں اپنے لیے بنا یا ہے.. صاحب مٹی کا کا م دینا ہو تا ہے بس دیتے ہی جا نا..مٹی کب میں کا سوال کر تی ہے. ..اسکی زر خیزی تو اور بڑھ جا تی ہے جب اس میں دکھ ,نفی,درماندگی کی کھاد ڈالی جا تی ہے.. وہ دینے والی بن جا تی ہے اپنی چوکھٹ پہ بیٹھنے والوں کو درختوں کی ٹھنڈی چھا ؤں دیتی ہے ..ان کو بھی دیتی ہے جو اسکے اوپر فساد برپا رکھتے ہیں اور انکو بھی جو اسے ناچیز سمجھ کر پوشاک سے جھاڑ دیتے ہیں ...ہاں مٹی کے باوے سے مٹی بننے کا سفر وہی جانیں جنکو سینچا جا تا ہے نفی کے پا نی سے....فیصلہ آپکا دکھ کی چا در اوڑھے صحرا میں اگا ببول بننا ہے یا گھنا سایہ دار درخت جو بے نیازی سے ہر ایک کو پھل اور سایہ دیتا ہے خود دھوپ میں جل کر اوروں کے لیے باعث راحت بنتا ہے..تقدیر کے فیصلے اٹل ہوا کرتے ہیں ان سے لڑ نے کی کوشش میں ببول بن جاؤ گی اور اسکی منشاء میں راضی ہو گئی تو مٹی بن جا ؤ گی زرخیز مٹی جو سایہ دار درخت اگاتی ہے..اور دوسروں کے لیے راحت بننے والوں کو ہی تو اس نے اپنے لیے بنا یا ہے...! ©حیا مریم

Tuesday, 22 December 2015

زمین کا قرض

کبھی تم نے زمین پہ چلتے ان کیڑے مکوڑوں کو دیکھا ہے نور پہلے یہ چیونٹیوں کو کھا تے ہیں اور جب یہ مر جا تے ہیں تو یہ ننھی چیونٹیاں ان کو نوچ کھا تی ہیں ... اللہ کا فر مان ہے *زمین پر اکڑ کر نہ چلو * جانتی ہو ہم سب پر یہ زمین جس پر ہم چلتے ہیں اسکا قر ض ہے... کیا؟؟زمین کا قر ض؟؟؟؟ ہاں زمین کا قرض..جو یہ ہے کہ ہم اس پر عاجزی سے رہیں ,,غا صب بن کر نہیں,حاسد بن کر ,دوسروں پر ظلم کر کے انکو تکلیف پہنچا کر نہیں ,اللہ کے احکا مات کو چھوڑ کر نا فرمانیاں کرنا اس مٹی اس زمین کے سا تھ بہت بڑی خیانت ہے..اور مرنے کے بعد ہم جو اس مٹی کی آغوش میں چلے جا تے ہیں نا وہ اپنے ایک ایک قرض کا حساب لیتی ہے..اور یہی کیڑے مکو ڑے اسکا حساب لینے میں اسکی مدد کرتے ہیں.... اور رہی بات ان لوگوں کی جو اسکا قرض خوش اسلوبی سے ادا کرتے ہیں یقین مانو زمین کے سر اسکا قرض ہوتا ہے اور یہ اپنا قرض ادا کرنا خوب جا نتی ہے...کیا تم نے یہ سنا ہے کہ شہید کے جسد کو مٹی نہیں کھاتی؟؟؟یقیناً جو اللہ کے احکا مات پر عمل کرتے ہیں اور اسکا خوف دل میں رکھتے ہیں زمین انکے لیے کشادہ ہو جاتی ہے انکو مر حبا کہنے کو..زمین انکو اپنے اندر سمیٹے بہت خوش ہوتی ہے...اور انکی قبر جنت کے با غوں میں سے ایک با غ بنا دی جا تی ہے...دنیا کی زندگی بہت مختصر ہے نوراسکی محبت میں اتنی کھو نہ جا نا کہ اپنے سر جو قرض ہیں انکو بھول بیٹھو ....ورنہ جب مٹی کے سپرد کر دی جا ؤ گی تو کو ئی بچا نے والا نہ ہوگا... حیا مریم...!

شکر ...!

وہ بو لیں نا شکری سے شکر تک کا سفر میں نے جا نے کب طے کیا ... میں گریہ کیا کرتی تھی ہر اس چیز کے لیے جو مجھے ملتی نہیں تھی شکوہ شکایتیں ,ربّ سے روٹھ جا تی تھی ..اس ضدی بچے کی طرح جو ہر وہ چیز حاصل کرنا چا ہتا ہے جس پر وہ ہا تھ رکھ دے.. میں ہر عنا یت کو بھول جا تی تھی اور مجھے یا د رہتا تو بس اتنا کہ میں نے جو مانگا مجھے ملا نہیں... لیکن میں اس بات کو بھول بیٹھی تھی اگر بچہ ماں سے ہاتھ میں کو ئلہ پکڑنے کی ضد کر ے تو کیا وہ اسے تھما دے گی؟وہ تو پھر ماں سے ستر گنا زیادہ محبت کرنے والا با ریک بین ,خبردار ,کریم ,رحمان ہے,, رفتہ رفتہ میر ے سا منے کچھ حقیقتیں کھلنا شروع ہو گئیں کہ جن چیزوں کے لیے میں آہ و زاری کر رہی تھی اگر عطا کر دی جا تیں تو میں بہت بڑے نقصان اٹھا تی...ایسا میرے ساتھ اتنی با ر ہوا کہ وہ شکوہ شکا یتیں سجدہُ شکر میں بدلنے لگے... بے شک انسان بے صبرا ,نا شکرا ہےاور اللّٰہ بہت کریم.. جب سے میں نے اس حقیقت کو دل و جان سے قبول کر لیا ہے کہ اللّٰہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے میری زندگی اطمینا ن سے بھر گئی ہے الحمدللّٰہ.. دوسروں کی غلطیوں کا با ریک بینی سے جا ئزہ لینا نہایت آسان ہےself analysisn نہایت مشکل.. یقین مانو سیرت اپنے آپ کو آئینہ دکھا نے سے زیا دہ تکلیف دہ عمل کوئی نہیں لگتا یہ ماننا کہ آپ غلطی پر ہیں.. کیونکہ ہمارے اندر ایک چیز بہت شدومد سے بیٹھی ہو ئی ہے اور وہ ہے دوسروں کو ظالم خود کو مظلوم سمجھنا. ہم پر بہت سی پریشا نیا ں ہماری اپنی خطاؤں کی وجہ سے آتی ہیں ..اس لیے اپنا جا ئزہ مسلسل لیتے رہنا چاہیئے کہ آپ کہاں غلط ہیں..ایک اچھے انسان اور ایک اچھے مسلمان بننے کے لیے یہ بہت ضروری ہے ..اور اگر آپ ہی اپنی ذات کے ساتھ سچے نہ ہوئےاور محض مظلومیت کی چادر اوڑھے یہی سوچتے رہے کہ غلطی دوسرے کی ہے تو یاد رکھیں *خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس قوم کو اپنی حالت کے بدلنے کا خیال آپ* *⭐©حیا مریم*

بلاعنوان

دسمبر کی خنکی میں پاک ٹی ہاوس لو گوں سے  کھچا کھچ بھرا ہوا تھا کہیں ادبی بحث ہو رہی تھی تو کہیں حالات حاضرہ پر ٹیبل ٹاک غرض شا ید تما م لوگ ہی ملک کے تمام مسائل اس ٹیبل ٹاک سے حل کر نے پر مصر نظر آ رہے تھے..
زینیہ سکندر ایک کو نے میں بیٹھی سوچ رہی تھی کہ کاش کوئی گفتار کے ساتھ کردار کا غازی بھی ہو..
اچانک جی سی یو نیورسٹی کی کچھ سٹو ڈینٹس مع اپنی گو لیگز کے اسکے قریب مو جود ٹیبل پر آن بیٹھیں..
ایک سٹوڈنٹ مخا طب ہو ئی میڈم ہماری تعلیمی اصلا حات اتنی کمزور کیوں ہیں کہ ہم مغرب کی بیسا کھیوں کے بغیر کھڑے نہیں ہو پا رہے ہم اپنے مزہب کے با رے میں اتنے کمپلیکس کا شکا ر کیوں ہیں ...
ہمارے میٹر ک اور ایف ایس سی کی سائنس  کی کتا بوں کے شروع میں ہی قرآن کی ایسی خو بصورت آیات دی گئی ہیں جو سائنس اور مز ہب کے تعلق کو بہت خو بصورتی سے ظا ہر کر رہی ہیں پر افسوس کہ اسا تذہ ان صفحات کو پڑ ھا نا تو درکنا ر  دیکھنے کی زحمت بھی محسوس نہیں کر تے...
ہما رے ہا ں ایک بہت غلط concept ہے کہ مذہب سے جڑنے والے لوگ دنیاوی تعلیم سے دور ہو جا تے ہیں ..
اگر ایسا ہے تو پھر ہم نے اپنے دین کو صحیح جا نا نہیں ..با ر با ر قرآن میں ذکر آتا ہے غو ر کرو اللّہ کی بنا ئی ہو ئی کا ئنات میں ..با ر بار اس چیز کا ذکر آخر کیوں؟؟؟
ایک سٹو ڈنٹ بولی وہ اسلئے تا کہ ہم اسکی کا ئنات میں اسکی کا ریگری میں غور کر سکیں ...اور جتنا غور کریں اتنا ہی اسکو دل کے قریب محسوس کر تے ہیں اتنا ایمان پختہ ہو تا ہے اتنی ہی اس سے محبت بڑھتی ہے...
*کیا وہ دیکھ نہیں رہے کہ ہم نے رات کو اس لیے بنا یا ہے کہ وہ اس میں آرام حا صل کرلیں اور دن کو ہم نے دکھلانے والا بنا یا ہے.یقیناً اس میں نشا نیا ں ہیں جو ایما ن و یقین رکھتے ہیں (النمل:86)*
نشا نیاں یعنی clues جو ہمیں کسی نتیجے پر پہنچنے میں مدد دیتے ہیں..
ہماری اپنی نسل کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی یہ ہے کہ ہم نے انہیں قرآن سے نہیں جوڑا..جنہیں جو ڑا ہے انھیں دنیا کی سا ئنس نہیں پڑھا ئی..یہ وہ چیز ہے جسں نے ہمارے مذہبی طبقے او ر پڑھے لکھے طبقے کے درمیان ایک ایسا خلا پیدا کر دیا ہے کہ دونوں ہی ایک دوسرے کو extremist اور گمراہ ہو نے کے طعنے دیتے ہیں ...اب دیکھیں آپ میں اورnon believers کے اندر کیا فر ق ہے وہ یہ کہ وہ ان نشا نیوں کو دیکھتے ہیں مگر ان کے پا س ایمان نہیں آپ کے پا س الحمد للّہ ایمان ہے مگر آپ نشا نیوں پر غو ر نہیں کر تے..جب ایمان اور ان نشا نیوں پر غور قر آن میں تفکر مل جا ئیں گے تو ایسا خو بصورت بندھن بندھ جا ئے گا کہ آپ حیران رہ جا ئیں گے...
ہمارا مزہب ہمیں وہ چیزیں 1400 سال پہلے define کر چکا ہے جو سائنس آج کر رہی ہے..تو کمپلیکس کس چیز کا ؟؟؟
آپ خود قر آن سمجھیں اسکی نشا نیوں پر غور کر یں ..لوگوں کو بتائیں آپکا دین کتنا سچا ہے..
* کہہ دیجیئے کہ تمام تعریفیں اللّہ ہی کو سزاوار ہیں .وہ عنقریب اپنی نشا نیاں دکھا ئے گا جنہیں تم (خود )پہچان لو گے اور جو کچھ تم کر تے ہو اس سے آپ کا رب غافل نہیں (النمل:93)*
قر آن میں فزکس ,با ئیو لوجی ,ایمبریولوجی ,سو شیا لو جی,ہیو  مینٹی غرض ایک ایک چیز بیا ن کر دی گئی کو ئی کھو لے تو سہی ,,یہ کتاب کیا مردوں پر پڑ ھنے کے لیے اتا ری گئی؟؟؟یہ ہم زندوں کے لیے ہے تا کہ ہم ان clues کو follow کریں انہیں سمجھیں قرآن کو سجا بنا کر الماری کے سب سے اوپر والے خانے میں نہ رکھ دیں اسے پڑھیں  ایمان میں اور زیا دہ ہو جائیں ...
*"اور اسی نے زمین میں پہا ڑ گا ڑ دیئے ہیں تا کہ تمہیں لے کر ہلے نہ.اور نہریں اور راہیں بنا دیں تا کہ تم منزل مقصو د کو پہنچو."
(النحل:15)*
ان آیات میں جو با ت اب ثا بت ہو رہی ہے 1400 سال پہلے بتا دیا گیا ہماری زمین یعنی earth میں جو پہاڑ ہیں وہ جتنے زمین کے اندر ہیں اتنے ہی با ہر یہ ہماری زمین میں ہک کا کا م کر رہے ہیں جو زمین کو سٹیبل رکھے ہو ئے ہے ورنہ زمین ہمیں لے کر ڈگمگا جا تی...
آجکل زلزلے آنے کی شر ح میں جو اضا فہ ہو رہا ہے وہ اسی لیے ہے کیونکہ پہا ڑ بڑی تعداد میں کا ٹے اور تراشے جا رہے ہیں ..
آج زینیہ سکندر کا یہا ں آنا رائیگاں نہیں گیااسکو ایک سمت مل گئی تھی جسے اسنے تلاشا ہی نہ تھا ...
*حیا مر یم��*